,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
حاکم شہر نے اعلان کروایا کہ تمام شادی شدہ مرد دو قطاروں میںکھڑے ہوںگے۔ ایک قطار میں وہ جو بیوی سے ڈرتے ہیں اور ایک میں وہ جو بیوی سے نہیں ڈرتے۔ بیوی سے ڈرنے والوںکی طویل قطار تھی جبکہ بیوی سے نہ ڈرنے والوں کی قطار میںصرف ایک شخص تھا۔ حاکم اس شخص کے پاس آیا اور اسے شاباش دی اور پوچھا آپ یہ کیسے سمجھتے ہیں کہ آپ بیوی سے نہیں ڈرتے۔ اس نے جواب دیا۔۔۔۔۔ معلوم نہیں بیوی کہہ کر گئی ہے کہ اس قطار میںکھڑ ے رہو ۔۔۔۔۔۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
صاحب صبح صبح مچھلی کے شکار پر روانہ ہو گئے۔ اور جاتے ہوئے بیگم کوہدایت کر گئے کہ آج کچھ نہ بنانا میں مچھلی شکار کر کے لاؤں گا وہی بھون کر کھائیں گے۔
ہمیشہ کی طرح واپسی پر مچھلی والے کے پاس رکے اور اسے بولے
“یار ذرا 2 عدد تازہ مچھلیاں دے دینا جو آج ہی کی پکڑی ہوں۔ “
اچھا صاحب۔ کونسی دوں ؟ مچھلی فروش نے مستعدی سے پوچھا۔
“ روہو دے دو “ صاحب بولے۔
مچھلی والے نے جلدی سے دو مچھلیاں تھیلے میں ڈالیں ، پیسے وصول کیے اور تھیلا صاحب کے حوالے کر دیا۔
صاحب نے تھیلے میں جھانک کر دیکھا تو وہ روہو مچھلی نہ تھی بلکہ مچھلی کی ایک اور قسم (ساندہ) تھی ۔ غصے سے تلملائے ہوئے مچھلی فروش سے کہا :
“ تمھیں تو روہو مچھلی کا بولا تھا۔ دوسری کیوں دی ؟“
صاحب ! تھوڑی دیر پہلے بیگم صاحبہ آئی تھی انہوں نے کہا تھا کہ روہو کھا کھا کر تنگ آ گئی ہوں ۔ آج صاحب مچھلی لینے آئیں تو کوئی دوسری قسم دینا۔“ مچھلی فروش نے انکشاف کرتے ہوئے جواب دیا۔
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
مرنے کے بعد دو عورتوں کی روحیں آپس میں ملیں ۔ باتوں باتوں میں ایک دوسرے سے مرنے کی وجہ پوچھی ۔ ایک عورت کہنے لگی ۔ میں اپنے شوہر پر خواہ مخواہ شک کرتی رہتی تھی۔ کہ شاید اسکا کسی دوسری لڑکی سے کوئی چکر ہے۔
ایک دن میں دفتر سے جلدی گھر پہنچی کہ دیکھوں کہیں میرے شوہر نے کسی دوسری لڑکی کو تو گھر میں نہیں گھسا رکھا۔ جب میں اچانک گھر پہنچی تو وہ اکیلا تھا۔ بس مجھے اپنے آپ پر اتنی شرمندگی ہوئی کہ میں شرم سے مر گئی۔
“ کاش تم ڈیپ فریزر کھول کر دیکھ لیتی تو نہ تم مرتی اور نہ میں “ دوسری لڑکی نے غمزدہ لہجے میں کہا۔ :: :: ::
سنا ہے شکار کے دوران ایک دفعہ ہارون بھائی کے ہاتھ ایک مچھلی لگ گئی۔ لیکن وہ چکنی ہونے کی وجہ سے انکے ہاتھ سے پھر پھسل کر پانی میں چلی گئی۔ کچھ دن بعد ہارون بھائی حسبِ معمول اپنی کھرک کا علاج کرانے ڈاکٹر کھرک کے پاس گئے تو وہ مچھلی بھی وہاں آئی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ ہارون بھائی نے پوچھا مچھلی صاحبہ آپ یہاں کیسے آئی ؟؟مچھلی نے ناراضگی سے جواب دیا “نامعقول جس دن سے تمھارے ہاتھ سے پھسل کر گئی ہوں کھرک پڑ گئی ہے اسی لیے ڈاکٹر کے پاس آئی ہوں“ :twisted:
میاں بیوی بستر پر لیٹے سونے کی تیاری کر رہے تھے۔ اچانک بیوی بولی
بیوی: سنو ! کیا تم میرے مرنے کے بعد دوسری شادی کر لو گے ؟؟
شوہر: نہیںبیگم۔ تمہیں پتہ ہے میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں۔ میں دوسری شادی نہیں کرونگا۔
بیوی: لیکن تم اتنی لمبی زندگی تنہا بھی تو نہیںگذار سکتے ۔ شادی تو تہمیں کرنا ہو گی
شوہر: دیکھا جائے گا ۔ اگر ضروری ہوا تو کر لوں گا!!
بیوی: (دکھ بھری آواز میں ) کیا تم واقعی دوسری شادی کر لو گے ؟
شوہر: بیگم ! ابھی تم خود ہی تو زور دے رہی تھی۔
بیوی: اچھا کیا تم اسے اسی گھر میں لاؤ گے ؟
شوہر: ہاں۔ میرا خیال ہے ہمارا گھر کافی بڑا ہے اور اسے یہیں رہنا ہو گا
بیوی: کیا تم اسے اسی کمرے میں رکھو گے
شوہر: ہاں کیونکہ یہی تو ہمارا بیڈ روم ہے
بیوی: کیا وہ اسی بیڈ پر سوئے گی
شوہر: بھئی بیگم ظاہر ہے اور کہاں سوئے گی
بیوی: اچھا کیا وہ میری جیولری استعمال کرے گی؟؟
شوہر: نہیں اس جیولری سے تمہاری سہانی یادیں وابستہ ہیں ۔ وہ یہ استمعال نہیں کرسکے گی
بیوی: اور میرے کپڑے ؟؟
شوہر: پیاری بیگم ! اگر مجھے شادی کرنا ہوئی تو وہ کپڑے بھی خود ہی لے کر آئے گی۔
بیوی: اور کیا وہ میری گاڑی بھی استعمال کرے گی ؟؟
شوہر: نہیں ۔ اسے گاڑی چلانا نہیں آتی۔ بہت دفعہ بولا لیکن وہ سیکھنا ہی نہیں چاہتی ۔
بیوی: کیاااااااااااااااااااااااااااااااااا ؟؟؟
شوہر: اوہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ششششششششششششششششششششٹٹٹٹ
بیوی شوہر سے: اعداد شمار نے ثابت کیا ہے کہ پاگل خانوں میں مردوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ ہے ۔
خاوند : پھر سوچ لو کون کس کو پاگل کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
...........................................................................................
خاتونِ خانہ ( بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے) منا رو رہا ہے اسے چُپ کروائیں۔
صاحب (اخبار پڑہتے ہوئے ) میں مصروف ہوں۔
خاتونِ خانہ : تُم تو ایسے کہ رہے ہو جیسے یہ میں میکے سے لائی ہوں۔
صاحب :بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر یہ کونسا میری بارات میں گئے تھے۔
.................................................................................................................
مالکن کافی پریشان اور غمگین لگ رہی تھی۔ نوکرانی شبو نے جھاڑ پونچھ کے دوران نوٹ کیا کہ مالکن رو بھی رہی ہے۔ تو ہمدردی سے پوچھا
“بی بی جی ! کیا بات ہے۔ اتنی پریشان کیوں ہیں؟“
“ کیا بتاؤں شبو ! تمھارے صاحب نے اپنی آفس سیکرٹری کے ساتھ عشق لڑانا شروع کر دیا ہے۔ “ مالکن نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔ تو شبو فوراً بولی
“نہیں مالکن۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ بات یقیناً آپ صرف مجھے جلانے کے لیے کہہ رہی ہیں“
............................................................................................
ایک صاحب پھولوں کی نرسری پر پہنچے اور چمپا کے پھولوں کا پودا طلب کیا۔
دکاندار نے بتایا کہ سرِدست چمپا کے پھول کا پودا دستیاب نہیں۔ آپ کوئی اور پودا لے جائیں۔
“نہیں ۔ مجھے چمپا کا پودا ہی چاہیئے “
لیکن کیوں ؟؟ دکاندار نے اصرار کیا۔
“دراصل 2 ہفتے قبل میری بیوی میکے گئی تھی اور مجھے چمپا کے پودے کو پانی دیتے رہنے کا بولا تھا۔ اور بیوی کی عدم موجودگی میں ، میں خود بھی 2 ہفتے سے گھر پر نہیں رہا جس سے چمپا کا پودا سوکھ گیا ہے۔